Shiddat e ishq novel by Mirha Shah | PDF Download

 Hi guys if you are searching on google for Shiddat e ishq novel then you are at the right place. Today i will provide a novel named Shiddat e ishq novel by Mirha Shah. This novel is full with romance. You will feel better after reading this novel. I will provide download link of this novel and you can also read this novel below. If you love reading urdu novels then this website is just for you:

Shiddat e ishq novel by Mirha Shah

Info about Shiddat e ishq novel by Mirha Shah:

Novel Name: Shiddat e ishq novel
Writer: Mirha Shah
Category: Romance, Sad, Love, Marriage based novel
Novel Status: Complete urdu novel
Download Status: It is available for download
Pdf file size: below than 20 mb

Read Online Shiddat e ishq novel:

مجھے وہ لڑکی ہر حال میں چاہیے ہے
وہ دھاڑا تھا
ایسا کیا ہے اس میں جو آپ مرے جارہے ہیں ملک صاحب وہ حیرت سے اس سے پوچھ رہا تھاجو ایک کے بعد ایک الوحل کا گلاس حلق میں انڈھیل رہا تھا 
تم جانتے ہو ایم جے
;جب وہ چھوٹی تھی محض چار سال کی وہ بے تحاشہ خو بصورت تھی اس کی گرے آنکھیں وہ
کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھی
وہ مدہوش ہوتے بول رہا تھا
اور اب جب وہ جوان ہوئی ہو گی مجھے یقین ہے وہ جوانی میں غضب ڈھاتی ہو گی وہ خیاست سے اس کی خوبصورتی کے تذکرے سامنے بیٹھے شخص سے کر رہا تھا
آپ سے کتنی چھوٹی ہے وہ ملک صاحب اس نے حیرت سے پوچھا تھا جو شادی شدہ مرد ہو کر بھی کسی لڑکی کے تذکرے کر رہا تھا
کم از کم پچیس سال  آہ کاش وہ اس رات میرے ہاتھ لگ جاتی پر وہ پتہ نہی کہاں غائب ہو گئی مجھے کچھ پتہ ہی نہی
چل سکا
واٹ وہ جو سمجھ رہا تھا وہ اس سے کچھ سال چھوٹی ہو گی مگر یہاں تو وہ شاید اس لڑکی کے باپ جتنی عمر رکھتا تھا
مجھے چاہیے وہ ہر حال میں ڈھونڈو اسے وہ شراب کے نشے میں تھا میں ایم جے اس پر ایک نظر ڈالتے باہر نکلا کلب کی تیز نیلی لال روشنی اور بے ہنگم لاوڈ میوزک اور ناچتے گاتے لڑکے اور لڑکیوں سے بے نیاز ہاتھ میں شیشے کا وائن سے بھر اگلاس لے کر وہ سامنے بیٹھے شخص کو غور کر رہا تھا جو اس کے سامنے زر ادور کچھ بے ہودہ حرکتوں
میں سر عام مصروف تھا
اس نے اس کا دھیان باہنوں کا ہار بنتے اپنی طرف کرایا تھا توجہ ہٹنے سے ایک ناگوار تاثر ابھر اتھا
جسے وہ بر وقت چھپا گیا۔
controll ur self lady
دور رہو گی تو فائدے میں رہو گی قریب آوگی تو عزت تو جائے گی جان بھی چلی جائے گی  وہ اسے کھنچتے ایک پر
اسرار مسکراہٹ سے بول رہا تھا
تمہاری بانہوں میں کون ظالم نہی مرنا چاہے گا وہ اس کی براون جیکٹ کا کار لر اپنے خوبصورت ہاتھوں کی مٹھی
میں جھکڑے مسکرائی
وہ گلاس پھینک کر ریلکس دوبارہ سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو اب سیڑھیاں چڑھتے جھولتامد ہوشی میں
اوپر جارہا تھا
اور وہ اس کی بانہوں کا ہار بنے تھی  جس سے اسے بلکل بھی کوئی فرق نہی پڑ رہا تھا کیو نکہ اس کی توجہ کا مرکز تو
سامنے موجود شخص تھا۔۔۔
مقابل کی ایک سخت گھوری سے وہ سٹپٹا یا۔۔۔
میر امطلب تھا کچھ پتہ چلا
وہ فوری مدعے پر آیا
یو دیٹ ٹوپک مجھے ابھی بات نہی کرنی۔
مراد نے مزید نبی پوچھا وہ شخص اپنی مرضی کا مالک تھا اپنی باتیں تو وہ شائد خود سے بھی نہی شیر کرتا تھا ڈیش بورڈ سے سے لائٹر نکالتے عنابی لبوں کے درمیان سگریٹ سلگائی وہ پر سوچ خلا میں دھواں چھوڑ رہا تھا۔۔ انکل کی سیٹ کب سنبھال رہے ہو مراد نے اس سے دوبارہ پوچھا جو فرنٹ سیٹ پر ریلیکس سا بیٹھا تھاسوچانہی دھواں گاڑی میں پھیل رہا تھا مر او نے چڑ کر نا گوار تاثر دیا سموکنگ کی سمل سے 
کیوں تمہیں آجانا چاہیے اب سیاست میں مشورہ دیا 
تو تم آجاو وہ بات کاٹتے بولا
سو مسٹر کیسی رہی نائٹ 
آدھی بچی سیگرٹ شیشے سے باہر پھینکتے کہا
کبھی سیدھا جواب نہ دینا مراد کو غصہ آیا
چلو ٹائم کافی ہو گیا ہے بولتے ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کی جیسے مزید وہ اس کی بکو اس نہی سنا چاہتا تھا مراد کو ڈراپ کرنے کے بعد وہ فل سپیڈ سے ڈرائیو کر رہا تھا کچھ ہی منٹوں میں وہ ایک سفید پوش ایریا کے سب سے بڑے گھر کی حدود میں داخل ہوا
گیٹ کھلتے ہی گارڈ کو چابی دیتے وہ اندر بڑ اسا گارڈن عبور کرتے لاونج میں قدم رکھے

سوتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے حلق میں کانٹے چب رہے ہیں
وہ کسمساتے نرم بستر سے اٹھی تھی نیند میں ڈوبی گرے آنکھیں جن کے ڈورے لال ہو رہے تھے بامشکل سائیڈ
لمپ اون کیا۔
پانی شدید پیاس لگی تھی
سائیڈ ٹیبل چیک کیا مگر جنگ خالی تھا
بلیک سوفٹی سفید پیروں میں اڑیستے گھڑی پر نظر ڈالی جو ایک سے کچھ اوپر کا ٹائم شو کر رہی تھی
بیڈ سے لا پر وا دوپٹہ لیے وہ باہر بڑھی۔۔
رات کے اس پہر ہر طرف خاموشی تھی جب وہ گھر میں داخل ہوا
ہر طرف ہو کا عالم تھالا ونج سے ہوتے سیڑھیوں تک کا سفر ابھی وہ طے کرتا کے کہ اندھیرے میں کسی سے
ٹکرایا۔
وہ اندھیرے بھی اندازہ لگا چکا تھاوہ نازک وجود کس کا ہے ایک دلفریب پر اسرار مسکراہٹ ہو نٹوں کو
چھوئی۔۔۔
وہ چینی کے وہ اس کے منہ ہاتھ رکھ کر دیوار سے لگا چکا تھا۔۔ ہیزل گرے آنکھیں سنجیدہ کالی آنکھوں سے نکر ہیں۔
ڈارلنگ میرا انتظار کر رہی تھی؟ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر اس کے منہ پر ہاتھ جمائے ہی پوچھا محض ملکی سی
پیلی روشنی میں اس کا شفاف چہرہ مزید دمک رہا تھا۔۔۔
خوف سے وہ کانپ رہی تھی اس کی بے انتہا قربت اور مردانہ پر فیوم کی خوشبو ناک سے ٹکراتے اسے خوف میں
مبتلا کر رہی تھی
بولو اس کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹاتے پوچھا جب کے ایک ہاتھ بر اون بالوں کو چھوتے ہوئے اس کی شارگ تک آ
چکا تھا۔۔
پا۔۔۔ پانی۔۔۔ پینے وہ اس کے ہاتھوں کی حرکت سے خوفزدہ ہوئی۔۔۔
بہت صبر آزماتی ہو تم سوئیٹ ہارٹ جلد کچھ کرنا پڑے گا اس کے کان کی لو پر جھکتے کہ وہ جی جان سے کانپی تھی جو پورا کا پورا اس پر جھکا تھا اگر دیوار کا سہارا نہ ہو تا تو وہ اب تک گر چکی ہوتی۔۔۔
وجد ۔۔۔ وجد ان۔۔ پلیز اپنے نازک ہاتھوں سے اسے دور کرتے وہ روہانسی ہوئی جو اس کی جان لینے پر تلا تھا اور پوری طرح نیند سے اسے بیدار کر چکا تھا 

البتہ وہ ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔۔۔
ڈمپل دیکھا;۔۔۔۔
ہاں وہ پورا منہ کھولے حیران ہوئی جو اس کی بازو گرفت میں لیتے کمر جھکڑ چکا تھا۔۔
وجد ان وہ بے بس تھی اس کی فرمائشوں اور حرکتوں سے۔۔۔۔ زبر دستی وہ مسکرائی اور نہ جانتی تھی ڈھیٹ انسان چھوڑے گا نہی۔۔۔ مجھے پسند ہیں  بولتے ہی وہ اس کے دونوں گالوں پر باری باری جھکا تھا۔۔۔۔
وہ کوس رہی تھی وہ لمحہ جب وہ نیچے آکر اس بلا کے ہاتھوں میں پھس گی۔۔۔
ابھی وہ کچھ اور کرتا کے وہ آنکھیں زور سے بند کر چکی تھی وجدان مسکر ایا اس کی حالت پر ۔۔
ڈار لنگ آج کے لیے اتنا ہی نیکسٹ پھر کنٹنیو کریں گے گھمبیر لہجے میں کہتے وہ مزید ایک بار اس کے ماتھے پر جھ کا تھا اور پر حدت لمس چھوڑتے چلا گیا۔۔۔۔
لفظ نے آنکھیں کھو لیں تو اند ھیرے میں صرف خود کو پایا مگر محسوس یوں ہو اوہ ابھی بھی اس کے حصار میں
جھکڑی ہے
میری جان لے کر رہے گا یہ شخص وہ بولتے بغیر پانی پیے او پر روم کی طرف خوفزدہ سی بھاگی تھی
وہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے عالیشان روم میں داخل ہو ا جہاں ضرورت کی ہر چیز تھی جہازی سائز بیڈ پر گرنے
کے سے انداز میں بغیر چینج کیسے اوندھے منہ لیٹا 
شدت عشق ;زیر لب دہراتے ہونٹ ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے
کچھ دیر پہلے کا منظر سوچتے وہ آنکھیں بند کر چکا تھا
رات میں تم پھر لیٹ تھے نہ 
صدف نے بیٹے سے پوچھا جو بے نیازی سے کیجول ٹراوزر اور بلیک ٹی شرٹ میں بیٹھا کافی پینے کے ساتھ اپنے
قیمتی فون میں بزی تھا
موبائل سے نظر ہٹائی
موم گیارہ بجے لیٹ ہوتا ہے 
لفظ پر
تھا
پر نظر ڈالتے جھوٹ کہا جو دانیہ کے ساتھ بیٹھی تھی اور اپنا کچھ پیپر ورک کر رہی تھی پر دھیان اس کی گفتہ و پر
لائر سوا ایک کا ٹائم تھارات کا منظر یاد کرتے وہ بلش ہوئی
وجد ان بغور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ مختلف منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔وہ باپ کی
بات پر ہوش میں آیا
وجدان کل میرے ساتھ پارٹی کے جلسے میں جارہے ہو تم 
احمد شاہ نے بیٹے سے کہا
یہ زبردستی ہے ڈیڈ
وہ بد مزہ ہو ا سیاست کے ٹوپک پر کچھ ماں کے ڈر کی فکر بھی تھی
وہ بھی اسی کے لہجے میں بولے

شاہ میں نہی چاہتی و جد ان سیاست میں جائے صدف نے خوف سے کہا
او کم اون صدف میری سیٹ اسی کو سنبھالنی ہے بی بریو وہ بچہ نہی بلکہ پورے چہھیں سال کا نوجوان مرد بن چکا
مجھ میں کچھ کھونے کی مزید ہمت نہی ہے شاہ وہ دکھ سے بولیں
لفظ ان کی بات پر رونے والی ہو چکی تھی
مما پلیز  وہ روتے سب کچھ وہی چھوڑتے فوری ان کے پاس آئی
میری جان وہ اسے سینے سے لگاتے بولیں
جو ان کی اکلوتی بہن کی نشانی تھی چند سال پہلے ایک حادثے میں دونوں میاں بیوی کی موت ایک حادثے میں
واقع ہو گئی تھی
جب انسان حق پر ہو نہ صرف تو خوف بھی کھاتے ہ
جو بھی ہو مجھ میں نہی ہمت شاہ وہ روتے بولی تھیں
نے پھر سے کہا
بھائی مما کو ہینڈل کریں آپ پلیز 
وانی وجد ان کے پاس گی
جب تک آپ ایگری نہیں ہیں میں اس فیلڈ میں آنے کا سوچوں گا بھی نہی وہ صوفے پر ساتھ جگہ بناتے بیٹھا اور
ان کے آنسو صاف کرتے اپنے بازوں کے گھیرے میں لیا
لفظ ان کی گود میں سر رکھے رو رہی تھی
جس پر فقط ایک نظر ڈالتے وہ تکلیف میں ہو ا جو اس کی متاع جان اس کی منکوحہ اس کا جنون کی حد تک عشق تھی
اپنی اداسی مجھے دے دے
میرے حقے کا تو مسکر ا یہ کر
احمد شاہ کی شادی ان کی کزن صدف سے ہوئی تھی
احمد شاہ کا ایک بیٹا وجد ان جو کے تین سال پہلے گریجویشن مکمل کر کے اب ایک کمپنی کا بظاہر بزنیس دیکھ رہا تھا

وہ سیاست میں انوالو نہی ہونا چاہتا تھا پر باپ مجبور کر رہا تھا
پھر وان یہ جو لفظ سے چار سال بڑی تھی اور وجد ان سے تین سال چھوٹی تھی جو ابھی بی ایس کر کے فری ہوئی تھی صدف کی رشتے میں صرف ان کی ایک بہن ہی تھی ان کی ایک ہی بیٹی تھی لفظ حیات خان
پر ایک حادثے میں ان دونوں کی موت ہو گئی تھی
لفظ کے والد پٹھان تھے جو کافی خوبصورت تھے لمظا نے ڈمپل اور گرے آنکھیں اپنے باپ سے حسن میں لیں تھیں جن کا وجد ان شاہ دیوانہ تھا۔
وجد ان اور لفظ کا نکاح پچھلے سال جب وہ اٹھارہ کی ہوئی تھی اس کی برتھڈے والے دن ہو ا تھا یہ وجد ان کی زندگی کی تو سب سے بڑی خوشی تھی
پر لفظ وجد ان سے ڈرتی تھی اس کے مطابق وہ اس کے ہر معاملے میں اس پر رعب ڈالتا ہے پر وہ اس بات سے شائد انجان تھی کہ وہ اس کا شدت والا عشق ہے
لفظ کی ماں بھی یہی چاہتے تھی اور صدف تو اسے کسی صورت بھی خود سے دور کسی غیروں کے حوالے نہی کرنا چاہتی تھی جو ان کی بہن کی نشانی تھی وہ اس کی ماں نہی تھی مگر ماں سے بڑھ کر اس سے محبت کر تیں تھیں جو اب ان کے اکلوتے لاڈلے بیٹے کی بیوی اور ان کی بہو بھی تھی
لفظ کا ایڈ مشن اسی سال یونیورسٹی ہوا تھا
گاڑی کو گلی کی نکر پر روکتے وہ لوک کرتے اترا تھا اور چہر ارومال سے کور کیا تھا
گلی کی حالت بس خراب کی ہی تھی
چار مرلے کے نارمل سے گھر کے دروازے کے آگے جا کر دروازہ نوک کیا۔
بیٹا جی آپ وہ بوڑھا شخص اسے دیکھ کر خوش ہوا تھا
اتناسب لانے کی کیا ضرورت تھی وہ اس کے ہاتھ میں موجو د راشن کا ڈھیر سارا سامان دیکھتے بولے تھے
مہربانی انکار نہی کیجیے گا بیٹا سمجھتے ہیں نہ وہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا تھا
کیسے ہیں آپ؟؟؟ وہ پیار سے اندر جاتے مخاطب ہوا تھا
کیسا ہو سکتا ہوں بیٹا وہ خود پر قابو پاتے بولے تھے
ارے بیٹا تم وہ اس شخص کی بیوی بھی شائد اسے دیکھ کر خوش ہوئی تھی جامنزہ بھائی کے لیے چائے پانی لا
ارے نہی آنٹی اسکی ضرورت نہی وہ نفی کرتے بولا تب تک کوئی چھوٹی لڑکی پانی کا گلاس لا چکی تھی
شکریہ  وہ مسکراتے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولا تھا
وہ آخری سہارا تھی ہمارا اس ظالم درندے نے نوچ لیا اسے اور اب ہم اگر قانون کی دھمکی دیں تو وہ ہمیں منزہ کی دھمکی دے کر گیا ہے وہ اس کا بھی وہی حال کرے گا ہم غریب لوگ کچھ نہی کر سکتے یہ حکومت اور قانون یہ بھی تو امیروں کے لیے ہے ہم تو بس ظالموں کی چکی میں پستے ہیں وہ روتے بول رہی تھی.
وہاں سے نکلتے ایک عزم سے نکلا تھا بر اون آنکھیں چمکیں تھیں
ہونٹوں پر ایک قاتلانہ زہر خند مسکراہٹ تھی
ملازمہ نے سارا ناشتہ ٹیبل پر سیٹ کر دیا تھا

وہ سب کھانے میں مصروف تھے
صرف وجدان نہیں تھا ئیمیل پر لفظ کو لگ رہا تھا فضا میں آکسیجن ہی آکسیجن ہے وہ کھل کے سانس لے رہی تھی
ٹھیک سے کرو ناشتہ اور پھر یہ دودھ بھی فنش کرو
ما لمنظ کی جان پر بنی تھی۔۔ نو آر گیووہ آنکھیں دکھاتے بولیں
ڈیڈ میں موٹی ہو رہی ہوں پلیز سمجھائیں مماکو
احمد کو گھسیٹا تھا اپنے دفاع میں
بلکل کمزور سی ہو اس معاملے میں مجھے نہی انولو کر ووہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے مسکراتے اٹھے
وہ منہ بسورتی رہی تھی والی جس رہی تھی
دودھ سے اسے ہمیشہ چڑھ تھی
جلدی صدف نے اس کی طرف بڑھایا
یونی کے لیے تیار ہو کر وہ نیچے آئی
تم ایسے جارہی ہو وانی نے تنقیدی جائزہ لیا کیونکہ دو منٹ بعد وہ انہی قدموں پر واپس آنے والی تھی اتناوانیہ
جانتی تھی
کیوں کیا ہو وہ حیران ہوئی
آہ کچھ نہی میرے بے بی وہ مسکراتی نظروں سے بولی تھی
او کے دین آئی ایم لیٹ ہائے وہ بھاگی تھی بیگ کندھے پر ڈالے پورچ کی طرف
یہ کیا تھادہ ششدر ہوئی تھی ڈرائیور کی جگہ اسے گاڑی کے پاس دیکھ کر وہ تو تھا نہی پھر یہ کیا کب کہاں سے آیادہ
بلکہ نازل ہوا تھا
وہ بلیو جینز پر وائٹ شرٹ کے بازو فولڈ کیے ماتھے پر بکھرے بے تر تیب بالوں میں گاڑی سے ٹیک لگائے شاید
اسی کے انتظار میں تھا
قدموں کی چاپ سے سامنے دیکھتے اس کا جائزہ لیا بلیک جینز پر ڈارک گرین شرٹ گھٹوں سے کافی اوپر تھی آدھی آستین جس میں سے سفید بے داغ بازو چھلک رہے تھے میک اپ میں بس پنک لپ بام لگائے بالوں کے
رف سے بن میں تھی
وہ قریب بڑھ رہا تھا جو منہ کھولے بس دو قدم کے فاصلے پر تھی چینج کرو الخود پر قابو پاتے اس کے گلے میں موجود مغرل کی گرہ کھولی
اب کیا خرابی ہے اس میں لمظ نے خود کو دیکھ کر غصے سے سوچا جو اس کا سٹولر کھولتے اس کے کندھوں پر پھیلا رہا
تھا
میں لیٹ ہوں پلیز 
وہ خوفزدہ ہی اس کی چنگارتی آواز سے یہی کہہ پائی تھیکیا خیال ہے پھر آج کا دن یونیورسٹی کی بجائے ہم ہمارے روم میں نہ سپینڈ کریں اسے کھینچ کے گاڑی کے ساتھ لگاتے سرد لہجے میں کہا تھا
وہ دھمکیوں سے خوفزدہ کر دیتا تھا

گرم سانسیں کان سے ہوتے گردن پر محسوس ہو ئیں تھیں
لفظ کی پوری آنکھیں کھل گئیں اس شخص کا کیا بھروسہ تھا اپنی بات وہ بغیر اس کی مرضی کے آسانی سے پوری کر
لیتا تھا
نہ۔۔۔۔ نہی وجدان اب اتنی بھی نہی لیٹ میں میں چھینج کرتی ہواس سے پہلے کے وہ کوئی اور سزاد یتا وہ اسے دور کرتے پورچ سے اندر بھاگی تھی۔
او میر ا بے بی واپس آگیا وانی نے ہستے کہا جو شائد لاونج میں اسی کے انتظار میں تھی آپ۔ وانی آپی۔۔۔ آپ کو آکر بتاوں گیں وہ لیٹ تھی لہجذ اغصے سے بولتے روم میں چلی گئی
روم میں اینٹر ہوئی تو سامنے بیڈ پر اس کا ڈریس پہلے سے پڑا تھا
یہ میری کبر ڈ تک کب پہنچا مینر ز نام کی تو میرے شوہر میں کوئی ایک بھی چیز نہی ہے وہ جی بھر کر شر مندہ ہوئی

اب یہ طے کریں گے میں پہنوں بھی کیا اوہ کڑھ رہی تھی اس کی سلیکٹ کی ہوئی ڈریس پر گرے کلر پر ریڈ لائٹ سی کڑھائی والی شرٹ اور کیپری لیتے وہ چینج کرنے کو بڑھی
چینج کرتے وہ باہر بڑھی تھی
وجد ان گاڑی میں سن گلاس لگائے اس کے ویٹ میں تھا
اسے دیکھ کر ایک دلکش سائل دی تھی جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے دوپٹے سے الجھ رہی تھی
شیشے اوپر چڑھائے تھے جس سے باہر سے کچھ نظر نہ آپائے
یوٹی کے پارکنگ ایریا میں روکتے اسے بغور دیکھا جو پریشان تھی یہ نہی ہو ر باوجد ان دو پٹہ بہت بڑا ہے میں سٹولر لیتی ہوں  وہ جھنجلائی تھی

میں کس لیے ہوں  وہ قریب ہوا دو پٹہ پکڑے مصروف سا کر رہا تھا
وہ دیکھ رہی تھی اسے جو ہلکی سی بئرڈ میں سنجیدہ سی شکل لیے کام میں مصرف تھا کیا ہے یہ شخص وہ سوچ سکی تمہیں برقعہ نہیں پہتارہانہ کوئی پابندی لگارہا ہوں مگر آئندہ مجھے تم میرے علاوہ کسی کے سامنے بھی دوپٹے کے
بغیر نظر نہی آو

اس ناول کو پورا پڑھنے کہ لیئے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔ شکریہ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post